Wednesday 29 April 2015

عبدا  لصبور شاکرؔ
حضرت ابوبکر ، ہر جگہ ثانی
دنیا دوستی کی مثال دیتے ہوئے ’’یار غار‘‘ کی مثال اکثر دے جاتی ہے۔ واقعی ، دوستی ہو تو ایسی، کہ جب بھی مثال دی جانے لگے، ان کے علاوہ کوئی مثال ملنا مشکل ہو جائے۔ خلیفہ اول کی دوستی کے کیا کہنے! کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق نبھانے میں آخری حدوں کو چھو لیا۔ اسی اعلی ذوق کی بدولت قرآن و حدیث کی گہرائیوں کو پہچانا،  اور رنگ یار میں ایسے رنگ گئے کہ روز اول سے ہی اپنی جان وتن، مال واولاد، گھر بار سب کچھ راہ خدا میںلٹا دیا۔ جب بھی ضرورت پڑی، اپنے حبیب کے قدموں میں سب کچھ ڈھیر کر دیا۔ حتی کہ فرشتوں کو عرشوں پر آپ کی تقلید میں ٹاٹ کا لباس پہننا پڑا۔ زمانہ اسلام سے قبل بھی درّیتیم کے دیوانے تھے۔ جب ابو جہل نے طنزًا کہا ’’تمہارے ساتھی نے اعلان نبوت کر دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ مجھے اللہ تعالی نے آخری نبی بنا کر بھیجا ہے‘‘ تو بلا تاخیر بول اٹھے ’’اگر انہوں نے فرمایا ہے تو پھر سچ ہوگا‘‘ فورا بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر استفسار کرتے ہیں کہ آپ کی طرف منسوب مجھے ایسی بات پہنچی ہے کیا یہ سچ ہے؟ کہ اللہ تعالی نے آپ کو خاتم النبیین کا تاج پہنا دیا ہے؟ اثبات میں جواب آنے پر بلا کسی جھجک اور مزید جانے ، کلمہ شہادت پڑھ لیا۔ 
بیت المقدس اور آسمانوں پر جانے کی خبریں جب کفار نے دیں اور کہا کہ تمہارا ساتھی ایسا اور ایسا کہتا ہے تو بول اٹھے اگر واقعی میرا ساتھی ایسا کہتاہے تو پھر سچ ہوگا۔غرض اسلام لانے میں نبوت کے ثانی،واقعہ معراج کی تصدیق میں ثانی، غار ہجرت میں ثانی، بدر کے میدان میں ثانی، غزوات میں ثانی، مصلے رسول پر ثانی، صلح حدیبیہ میںثانی، تبوک میں ثانی، حج ادا کرنے میں ثانی، خلافت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ثانی، جہاد روم میں نبوت کے ثانی، مرض الوفات میںثانی، حتی کہ روضہ اطہر میںثانی، اور آخرت میں حوض کوثر پر ثانی۔ 
آپ کا یہ تعلق اتنا بڑھا کہ بڑے بڑے کٹھن حالات نے بھی آپ کے پاؤں میں لرزش پیدا نہ ہونے دی۔ ہر قسم کے صبر آزما مرحلوں سے پورے اطمینان قلبی سے گزرے۔ ہر مشکل وقت پر پوری ہمت و جرأت سے اپنی قوت ایمانی ، اور سرفروشی کا نمونہ پیش کرتے رہے۔ نبوت کے دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد بھی اپنی جان خطرے میں ڈال کر ناموس کی حفاظت کی۔ حالات نے کب حق کا ساتھ دیا ہے؟ اہل حق کو ہمیشہ حالات سے یہی گلہ رہا ہے لیکن ثانی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حالات کو اپنے حق میں کیا ، دنیا چودہ سو سال تک دیکھتی رہ گئی۔ اگر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حالات کے دھارے میں بہہ جاتے تو آج اسلام بھی صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتا یا چند مخصوص افراد کی کٹیاؤں میں ہفتہ وار جاپنے کے کام آتا۔ جیسے دوسرے ادیان کے ساتھ ہوا۔ 
آپ رضی اللہ عنہ کو یہ رتبہ بلند صرف اور صرف محبت و اطاعت نبوت کی بنا پرملا۔ اللہ کے رسول کی محبت ایمان کی شرط اول ہے۔ جو دل ان کی محبت سے خالی ہوتا ہے اسے دل کی بجائے ’’سِل‘‘ (اینٹ) کہنا زیادہ بہتر ہے۔ اور جو سینہ ان کی محبت سے عاری ہے وہ سینہ کی بجائے ویرانہ ہے۔ یہ ویرانہ محبت سے آباد ہوسکتا ہے اور محبت اطاعت سے آتی ہے۔ اور اطاعت ، عمل کا دوسرا نام ہے۔ 
انقلاب کا نعرہ فیشن کا درجہ پا چکا۔ لیکن اصلی انقلاب صدیق اکبر جیسے پرتوِ نبوت لوگوں کے دم سے ہی آیا۔ جن کی زندگیاں آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ فتنے ، آزمائشیں، ختم نبوت کے منکرین، قرآن کا نام لے کر اس سے ٹکرانے والے، زکوۃ کے منکرین، رومی فوجوں کے خطرات، مسلمانوں کے اپنے اندر پائی جانے والی شورشیں، یہ سب چیزیں آج بھی ویسے ہی موجود ہیں جیسے چودہ سو سال قبل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں موجود تھیں۔ لیکن فرق اتنا ہے کہ آج جذبہ صدیقی رکھنے والے لوگوں کی قلت ہے؎
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر۔

میلاد کیسے منائیں ؟

عبدالصبور شاکر ؔ   
میلاد کیسے منائیں؟
ربیع الاول یوں تو دنیا کے ہر کونے میں آتا ہے۔ لیکن جس انداز سے برصغیر پاک و ہند میں اس کا استقبال ہوتا ہے شایدہی کہیں ایسا ہوتا ہو؟ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مبارک اس مہینہ میں ہوئی اور اس وقت سے اب تک ایک ہزار چار سو اٹھاسی مرتبہ ربیع الاول آ چکا ہے۔جن میں سے ایک سو باسٹھ مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں آیا۔(آخری صحابی حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ۱۱۰ھ میں فوت ہوئے یہ حساب ان کی وفات تک کا ہے) حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جانثار ، وفادار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات و واقعات سیرت و تاریخ کی کتب میں محفوظ ہیں۔جتنی محبت ان عظیم ہستیوں کو آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے تھی اتنی آج کے کسی شخص کو خواب میں بھی نہیں ہو سکتی۔ اور اس بات کا گواہ خود رب العالمین کا قرآن ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے ۔انما المؤمنون الذین امنوا باللہ ورسولہ ثم لم یرتابوا۔ترجمہ: ایمان والے تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانا ہے، پھر کسی شک میں نہیں پڑے۔ (سورۃ الحجرات : ۱۵)اور ایمان وہی لاتا ہے جو دل سے محبت کرتا ہے جو محبت نہ کرے تو اس کا ایمان بھی کامل نہیں ہے جیسے ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا کہ آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا لا، والذی نفسی بیدہ ، حتی اکون احب الیک من نفسک، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا  فانہ الان واللہ ،لانت احب الی من نفسی  یعنی اللہ کی قسم!اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اے عمر اب (ٹھیک ہے)۔صحیح بخاری۔
کئی واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو ٹوٹ کر چاہتے تھے۔ چنانچہ احادیث مبارکہ میں آتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ سواری پر سوار ہو کر بیٹھے اور مسکرائے ، ساتھیوں نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے نبی علیہ الصلوۃ والسلام ایسے ہی مسکرائے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سفر حج پر جاتے ہوئے ایک جگہ پہنچ کر سواری سے اتر گئے اور ایک طرف ہوکر ایسے بیٹھ گئے جیسے کوئی قضائے حاجت کرتا ہے۔پھر اٹھ کر آگئے ، ساتھ آئے غلام نے پوچھا کہ آپ کو تقاضا نہیں تھا تو آپ بیٹھے کیوں؟حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا جواب تھا کہ ’’سفر حج پر جاتے ہوئے میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں حاجت کی تھی میں ان کی اتباع میں یہاں بیٹھا تھا۔‘‘
حضرت ابومحذورۃ اوس بن مِعْیَر رضی اللہ عنہ بچوں میں سے تھے آپ نے ساری زندگی اپنے سر کے سامنے والے حصے کے بال نہیں کٹوائے جس کی وجہ بہت لمبے ہوگئے تھے اور تکلیف دیتے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ یہ آپ کو اتنی تکلیف دیتے ہیں پھر بھی آپ انہیں نہیں کٹواتے ؟ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’یہ میں کیسے کٹوادوں؟ ان پر تو فتح مکہ والے دن میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک رکھا تھا۔
ایک صحابیہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر اطہر پر آئیں اور صدمہ وصال برداشت نہ کرتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ 
ان چاروں مثالوںسے معلوم ہوتا ہے کہ عمر کے ہر حصہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی۔حتی کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی ہر ہر ادا انہوں نے محفوظ کر رکھی تھی۔ لیکن ہمیں پورے ذخیرہ حدیث سے معلوم نہیں ہوتا کہ ان صحابہ کرام نے مروجہ طریقہ سے میلاد النبی منایا ہو۔پہلے صحابی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے لے کر آخری صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ (وفات ۱۱۰ھ) تک کسی صحابی سے یہ طرز عمل منقول نہیں۔
پس چہ باید کرد؟ 
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان عالی ہے علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین۔ تمہارے اوپر میری اور میرے خلفاء الراشدین کی سنت پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ لہذا جس طرح  صحابہ کرام علیہم الرضوان نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے اخلاق و اعمال ، دین و شریعت اور اسوۂ کامل کو لے کر ساری دنیا میں پھیل گئے جس سے منشأ نبوت کی تکمیل ہوئی۔اور انہیں رضائے الہی و رضائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم حاصل ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں آیا ہے۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔کوئی بعید نہیں کہ ہم بھی انہی خطوط پر چلیں گے تو یہی خطاب ہمیں بھی حاصل ہو جائے ۔
مروجہ میلاد کی شرعی حیثیت:
اوپر دی گئی ساری بحث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مروجہ طریقہ سے میلاد منانا ایک غیر ثابت شدہ عمل ہے اور جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کے صحابہ کرام نے فرمایا ہو وہ سنت اور مستحسن ہے اور جو اس کے خلاف ہو شریعت اسے ناجائز قرار دے گی۔ مروجہ میلاد کی تمام تاریخ پر جب نظر دوڑاتے ہیں تو ابتداء اس کی کوئی شرعی قباحت نہیں ملتی کہ ایک مجلس میں چند احباب جمع ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرمبارک چھیڑ لیتے اور سننے والے اس سے محظوظ ہوتے ۔ لیکن کیا کریں بدعت کا ؟ کہ شیطان اس کی شروعات بہت اچھے انداز میں کرواتا ہے۔ لیکن بعد میں یہی چیز اسلام کے نام پر ایک نیا اسلام بن چکی ہوتی ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ اسلام جو نبی علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے تھے نامکمل تھا۔ اب ہم اسے مکمل کرنے جارہے ہیں۔ مروجہ میلاد کی بھی یہی حالت ہے۔تذکرہ ولادت رسول سے کہیں آگے بڑھ کر اس میں اضافے ہوتے گئے اور ایک نیا دین وجود میں آتا گیا۔ جیسے کسی فصل میں ابتداء میں اگنے والی جڑی بوٹیاں بڑی بھلی معلوم ہوتی ہیں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے لیکن زمیندار جانتے ہیں کہ یہی خوبصورت نظر آنے والی جڑی بوٹیاں اصل فصل کو اجاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ اسلام کے نام پر شروع ہونے والے میلاد میں وہ خرافات داخل ہو گئیں جن کے مفصل تذکرے پر ایک مستقل رسالے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔  
مروجہ میلاد کی قباحتیں:
٭… مروجہ میلاد کی پہلی قباحت تو یہ ہے کہ یہ اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورطریقہ صحابہ کرام و اولیاء عظام سے ہٹ کر نئی چیز ہے۔ 
٭… دوسری قباحت یہ ہے کہ اس میں اسراف فی المال بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ مثلا ہزاروں روپے کی لائٹنگ اور مسجدوں میں سجاوٹ جو صرف ایک دن کے لئے ہوتی ہے۔ اسلام میں اس طریقے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام میں ہر خوشی کے موقع پر اللہ تعالی کی طرف دھیان کی تلقین ہوتی ہے جب کہ ہمارے ہاں اس دن دنیا داری کی طرف دھیان ہوتا ہے کہ کس مسجد میں کس طریقے سے میلاد منایا گیااور بعض جگہ تو مساجد کی سجاوٹ پر باقاعدہ مقابلے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے انعام تقسیم ہوتے ہیں۔(حالانکہ یہی روپیہ اگر کسی غریب کو دے دیا جاتا تو اس کے گھر میں کئی دنوں تک چولہا جلتا رہتا۔)
٭… اس دن کا نام بعض علماء سوء کے کہنے پر عوام الناس نے ’’عید‘‘ رکھ دیا ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نیا دین گھڑ  لیاگیا ہے کیونکہ شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف دو عیدیں مقرر فرمائی تھیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحی۔نئی عید بنا کر گویا شارع علیہ السلام کو بتایا جارہا ہے کہ آپ کا دھیان اس تیسری عید کی طرف نہیں گیا۔
٭… اب بات مساجد سے نکل کر گلیوں اور محلوں میں آ چکی ہے۔ میلاد النبی کے باقاعدہ جلوس نکلتے ہیں۔ جودور حاضرکے روافض کے اعمال سے مشابہ ہیں۔ اگرچہ ابھی ان جلوسوں کے مفاسد نظروں سے پوشیدہ ہیں لیکن آنے والے وقتوں میں تفرقہ بازی کا بڑا سبب بن سکتے ہیں۔اگر جلوسوں کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی تو حج کے موقع پر ضرور کسی نہ کسی جلوس کا اہتمام کیا جاتا ، حالانکہ ان دنوں کوئی بھی کام اجتماعی کرنے کا نہیں ہوتا۔ سوائے خطبہ حج اور فرض نمازوں کے، تمام اعمال انفرادی ہوتے ہیں۔
٭… نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش کا ایک دن مقرر کر کے ہر سال خوشی منانا، عیسائیوں کے عمل سے مشابہت ہے اور غیر مذاہب سے مشابہت کے بارے میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان عالی ہے۔ من تشبہ بقوم فہو منہم یعنی جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔
٭… ۱۲ ربیع الاول والے دن غیر اسلامی امور جو اسلام میں حرام ہیں انہیں لوگ اسلام کا نام دے کر بڑے شوق اور کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالی کا نام اور درود شریف کو بطور میوزک استعمال کرنا، عورتوں اور مردوں کا اختلاط، غیر شرعی لباس اور وضع قطع والے افراد کو اسلام کے رہنما کے طور پر پیش کرنا اور ان سے غلط سلط اور غیرثابت شدہ  مسائل کا سننا، دف کی تھاپ پر نوجوانوں کے جسموں کا تھرکنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی تشبیہ بنا کر اسے اصل جتنی اہمیت دے کر نذرانے دینا اور منتیں ماننا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کے اسم مبارک کو جھنڈیوں پر لکھنا پھر انہیں دوسرے دن گلیوں میں پھینک دینا، جس سے بے ادبی ہوتی ہے وغیرہ۔  
٭… بعض اہم امور دینی مثلا نمازوں وغیرہ سے بے پروائی برتی جاتی ہے اور بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے پورے سال میں ایک میلاد منا کر شاید نبی علیہ السلام کا حق ادا کر دیا ہے حالانکہ یہ ان کی غلط فہمی ہوتی ہے۔ اسلام میں کرنے کے کئی کام ہیں جن سے پہلو تہی کی جارہی ہے۔ 
میلاد منانے کا شرعی طریقہ:
٭… نبی علیہ السلام کی سیرت سے عوام الناس کوایک خاص دن کی بجائے تمام سال روشناس کرایا جائے۔ اور ان مجالس میں پیشہ ور خطیبوں کی بجائے اہل دل علماء کو دعوت وعظ دی جائے۔
٭… محبت اور عشق کے محض نعروں کی بجائے عملی طور پر بھی قدم اٹھایا جائے۔ تاکہ کل قیامت کو حضور علیہ السلام کے دربار میں پیش ہونے کے قابل ہو سکیں ۔ اگر صرف دعوی محبت ہی کافی ہوتا۔ تو آپ علیہ السلام کے قریبی رشتہ دار اس کے دعویدار تھے لیکن ایمان و عمل سے خالی ہونے کی بنا پر جنت میں اپنا گھر نہ بنا سکے۔
٭… اپنی زندگیوں کو نبی علیہ السلام کے بتائے اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالیں۔ 
٭… سیرت کے جلسے منعقد کرتے وقت ایذاء مسلم سے بچیں ، چنانچہ اپنی تقاریر و نعت کی آواز اتنی مناسب رکھیں کہ اہل محلہ اس سے تنگ نہ ہوں۔ 
٭… جیسے عورتوں کو مساجد میں آنے سے ائمہ کرام نے منع فرمایا ہے اسی طرح عورتوں کو ان مجالس میں آنے سے بھی روکا جائے۔ 
٭… گلی محلوں میں جھنڈیاں آویزاں کرنے اور بڑے بڑے سائن بورڈز آویزاں کرنے پر جو خرچہ آتا ہے اسے بچا کر ،نادار لوگوں اور اسلامی لٹریچر پر خرچ کریں تو ان شأاللہ دنیا و آخرت کا منافع ہو، جیسے ایک بزرگ نے نفلی حج پر نادار خاندان کی کفالت کو ترجیح دی تو اللہ تعالی نے اسے قبول حج جتنا ثواب عطا فرمایا۔(فضائل صدقات) 
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیدھا راستہ دکھائے ، ایسا راستہ جس پر اس کے انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین چلے۔ آمین۔